3. اہراہیم علیہ السلام عراق کے شہر بابل میں تقریباً 1999 قبل مسیح آزرنامی بت پرست کے گھر پیدا ہوئے ،قوم بتوں اور شمس وقمر کی پوجا کرتی تھی،لوگوں نے نمرود بن کنعان بادشاہ وقت کو بھی الوہیت کا درجہ دے رکھا تھا ، باپ بت گری اور بت فروشی کرتا تھا - کبھی کبھی ابراہیم علیہ السلام کو بھی بیچنے کے لیے دیتا،آپ اسے اٹھاکر بازار لاتے اور اعلان کرتے ”ہے کوئی جو ان بتوں کو خریدے جو اسے نقصان ہی پہنچائ ي ں گے نفع نہیں پہنچا سکتے “ چنانچہ کوئی خریدنے نہیں آتا۔ کبھی،کبھی پانی میں اس کا منہ ڈبوتے اور کہتے ”پانی پی لو، پانی پی لو “
4. ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے سبق کیوں؟ (1) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں جو پیغام ہے کسی دوسرے نبی کی زندگی میں نہیں ( وابراہیم الذی وفی ) ( اذابتلی ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن ) اس لیے کہ وہ” خلیل اللہ“ ”انسانوں کے امام “ ”بانی حنیفیت “ پانچ ”اولوالعزم من الرسل “میں سے ایک ہیں جن کی ذریت سے ہی بعد کے سارے انبیاءآئے ۔ جن کو اسوہ بنانے کا حکم اللہ پاک نے اپنے نبی کو دیا ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراہیم حنیفا ۔ پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھجی کہ ابراہیم علیہ السلام کی ملت حنیفیت کی تابعداری کریں پھر اللہ پاک نے ہمارے لیے ان کی زندگی کو اسوہ اور نمونہ بنایا قد کانت لکم اسوہ حسنة فی ابراہیم والذین معہ کہ تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھ جولوگ تھے ان کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ بلکہ اللہ پاک نے یہاں تک فرمایاومن یرغب عن ملة ابراہیم الا من سفہ نفسہ ابراہیم علیہ السلام کی ملت سے وہی اعراض کرسکتا ہے جو بیوقوف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے ان کی بہت ساری یادوں کو امت مسلمہ کے لیے تازہ رکھا ۔ چنانچہ آج کعبہ ان کی یاد تازہ کرتا ہے ، مقام ابراہیم ان کی یاد تازہ کرتا ہے ، حج ان کی یاد تازہ کرتا ہے ، قربانی ان کی یاد تازہ کرتی ہے ، صفا ومردہ کی سعی ان کی یاد تازہ کرتی ہے ، آب زمزم ان کی یاد تازہ کرتا ہے ،جمرات کو کنکریاں مارنا ان کی یاد تازہ کرتا ہے ۔ (2) آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں لگتا ہے کہ وہی ابراہیمی دور ایک بار پھر لوٹ کر آگیا ہے ،بت پرستی، شمس پرستی ،قمرپرستی،قبرپرستی ، رجال پرستی اور نہ جانے کون کون سی پرستیاں انسانی سماج میں رائج ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ کفر کی طاقتیں اسلام واہل اسلام کو نابود کرنے کے لیے گویا ادھار کھائی بیٹھی ہیں ۔ ایسے پرآشوب دور میں سنت ابراھیمی سے سبق حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ (3 ) ہم اس آخری شریعت کے علمبردار ہیں جس کے علاوہ قیامت تک کوئی شریعت مقبول نہیں اور اس کی تبلیغ کی ذمہ داری اب انبیاء پر نہیں رہی کیونکہ نبوت کا دروازہ بند ہوچکاہے ، ہر مسلمان پر ہے ( بلغوا عنی ولو آیة )
5.
6. (2) دعوت کی ذمہ داری قبول کرنے کے سب سے زیادہ حقدار نوجوان ہیں : دعوت کی ذمہ داری قبول کرنے کے سب سے زیادہ حقدار نوجوان ہیں : اصحاب کہف کی بابت اللہ تعالی نے کہا ”انھم فتیة“ وہ چند نوجوان تھے جو اللہ پر ایمان لائے تھے ۔ اور ابراہیم علیہ السلام جب ان کے بتوں کو پاش پاش کرکے نکلے اور قوم نے بتو ں کواوندھے منہ گراہوا دیکھا تو پکار اٹھے ” سمعنا فتی یذکرھم یقال لہ ابراہیم “ ہم نے ایک نوجوان کو اپنے بتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا ہے جس کا نام ابراہیم ہے جی ہاں ! کسی بھی تحریک کی کامیابی کے پیچھے اس کے نوجوانوںکا بڑا رول ہوتا ہے ،چنانچہ اسلام بھی اگر پوری دنیا میں پھیلا ہے تو نوجوانوں کے عزم وحوصلہ ان کی جواں مردی اور ان کے اعلی اخلاق کی بنیاد پر۔حضرت اسامہ بن زید ،زید بن ثابت ، مصعب بن عمیر،بلال حبشی اور سلمان فارسی نوجوان ہی تو تھے ۔ عقبہ بن نافع ،طار بن زیاد،موسی بن نصیر ،اور محمدبن قاسم نوجوان ہی تو تھے جنہوں نے تاریخ بنائی اور ایک ریکارڈ قائم کیا ۔
7. (3) معاشرے سے سمجھوتہ کرنا مسلمان کی شان نہیں کفروشرک سے اٹے سماج میں ابراہیم علیہ السلام نے آنکھیں کھولیں،باپ پروہت تھا،باپ نے اپنے بیٹے کے لیے اسی گدی کا خواب دیکھا رہا ہوگا،لیکن آپ اپنے سماج کو سدھارنے کا بیڑا اٹھایا دعوت کا تین مرحلہ (1) باپ کو دعوت : ابوجان ! آپ ایسی چیز کی عبادت کیوں کررہے ہیں جو نہ سنیں ، نہ دیکھیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں ،، ( مریم 41-48) (2) قوم کو دعوت : ماھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو .... کیا ہیں ۔ ان کا صرف یہی جواب تھا کہ وجدنا آباءنا لھا عابدین ہم نے اپنے باپ دادا کو انہیں کی پوجا کرتے ہوئے پا یا .... اس لیے ہم بھی کررہے ہیں ۔ آج بھی جہالت اور شرک وبدعت میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو شرک وبدعت سے روکا جاتا ہے تو فورا جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کس طرح ترک کردیں جبکہ ہمارے آباو اجداد بھی یہی کچھ کرتے آرہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : لقد کنتم انتم وآباءکم فی ضلال مبین تم اور تمہارے آباواجداد کھلی گمراہی میں تھے یعنی ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ،ایک گمراہی میں تمہارے اگلے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہوجا ؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ۔ پوجاریوں کی دوسری جماعت وہ تھی جو ستاروں ، چاند اور سورج کی پوجا کرتی تھی ۔ آپ نے ان کو نہایت حکمت عملی اور منطقی انداز میں سمجھایا رات میں ستارہ کو نکلا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب ستارہ ڈوب گیا تو کہا : یہ میرا رب نہیں ہوسکتا ۔ کل ہوکر چاند کو نکلا دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے ،لیکن جب چاند بھی ڈوب گیا تو کہا کہ یہ میرا رب نہیں ہوسکتا ۔ صبح میں سورج کو نکلتا ہوا دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے لیکن جب شام میں وہ بھی ڈوب گیا تو کہا : یہ بھی میرا رب نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام اصل میں قوم کو بتانا چاہتے تھے کہ جو چھپتا ہو ظاہر ہوتا ہو، جو ڈوبتا ہو پھر طلوع ہوتا ہو ۔۔ وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے آنکھ والا تیری قدرت کا تماشہ دیکھے دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے (3) بادشاہ کودعوت (( رَبِّيَ الَذِي يُحْيِي ويُمِيتُ .... فَأْتِ بِهَا مِـــنَ الـمـَغْرِبِ ... َ )) [ البقرة :258]. ممکن تھا کہ ابراہیم ان کی ظاہر پرستی میںالجھ کرکہیں کہ یہ مارنا اور جلانا نہیں ہوا اوردلیل دینا شروع کردیں لیکن آپ نے اس سے بہتر طریقہ اپنایا جسے بلاغت کی اصطلاع میں افحام کہتے ہیں کہ ”جب تم ایسا کرسکتے ہو تو ایسا کرکے بتادو “سورج کو مغرب سے نکال کربتادو۔
8. (4) داعی كفر كے شب دیجور سے مایوس نہیں ہوتا بلکہ منصوبہ بندی کرتا ہے مدعو کی عقل کو کھولنے کا ایک سنہرا انداز : ابراہیم علیہ السلام جب باپ کواورپوری قوم کو سمجھانے سے عاجز آگئے تو دعوت کا ایک دوسرا اسلوب اپنایا،جس کی کیفیت یہ تھی کہ مندر کے سارے بتوں کو کلہاری سے پاش پاش کردیا اور بڑے بت کو چھوڑکراس کی گردن میں کلہاری لٹکادی ۔ مقصد غیرمسلموں کی عبادتگاہ کو منہدم کرنا نہیں ( کیونکہ یہ جائز نہیں ) بلکہ دعوت تھا ۔ (( أُفٍّ لَّكُمْ ولِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَفـَــلا تَعْقِلُونَ )) نوٹ : جب مدعو ہماری بات پر دھیان نہ دے رہاہوتو مایوس نہ ہوںبلکہ ابراہیم علیہ السلام کے جیسے دوسری کسی طرح کی پلاننگ کریں۔
9.
10.
11.
12. (8) توریہ جائز ہے انی سقیم بل فعلہ کبیرھم ھذا ، ھذہ اختی
13.
14.
15.
16. ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے اقتصادی سبق : انسانی زندگی کو سايكلوجی اور Physiologi دوچیزوں کی بیحد ضرورت ہوتی ہے،انہیں دونوں کی دعاکرتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ( واذقال ابراہیم رب اجعل ہذا البلد آمنا وارزق اھلہ من الثمرات ) Physiologi میں أکل وشرب اور لباس ورہائش گاہ جبکہ سائکلوجی میں امن وسکون داخل ہے۔
17.
18. ابراہیم علیہ السلام سے متعلق مزيد چند مسائل (1) سب سے پہلے آپ کو ہی لقب ملا ” ابوالضیفان (3) ذبیح اسماعیل تھے اسحاق نہیں جیسا کہ عیسائیوں کا کہنا ہے اس لیے کہ اللہ تعالی نے کہا اذبح ابنک البکراو الوحید کہ اپنے پہلے بیٹے یا اکیلے بیٹے کو ذبح کرو۔ پھر قرآن میں بھی ذبح کے قصہ کے بعد ہی اسحاق کی بشارت کا ذکر آیا ہے۔ ابن قیم نے بیس وجوہات سے اسماعیل کو ذبیح ثابت کیا ہے - (2) سب سے پہلے آپ نے ہی ختنہ کرایا اختتن ابراہیم وھو ابن ثمانین بالقدوم ( بخاری مسلم ) قدوم صحیح قول کے مطابق آلہ ہے جس سے ختنہ کیا تھا ۔
19. (4) چھپکلی کومارنے کا حکم : بخاری ومسلم کی روایت ہے : اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر پھوک مارتی تھی ۔ ( 5 ) توریہ جائز ہے : حدیث میں ہے ( ان فی المعاریض لمندوحة عن الکذب ) یعنی اشارہ کنایہ سے بات کہہ دینے میں جھوٹ سے بچا ؤ ہے ۔ ( انی سقیم ) یعنی دلی طورپر بتوں کو دیکھ کربیمار ہوں۔ ( بل فعلہ کبیرھم ھذا ...) یعنی یہاں تحکمانہ انداز سے ان کی آنکھیں کھولنا مقصودتھا۔ ( ھذہ اختی ) یعنی اسلام کے ناطے بہن ۔
20. (6) خانہ کعبہ میں کسی بھی نبی کی میت مدفون نہیں ہے : مسجد حرام اور مکہ مکرمہ کی تاریخ پر تصنیف شدہ کتابوں مثلاً " اخبارمکہ” ( عربی ) اور تاریخ مکہ ( اردو ) وغیرہ میں جو یه کہا گیا هے که مسجد حرام میں فلاں فلاں جگہ , فلاں فلان انبیاء مدفون ہیں - یہ سب قطعى بے ثبوت ہے - علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی معروف کتاب " تحذیرالساجد عن اتخاذ القبورمساجد " میں تحریرفرماتے ہیں :- ” حضرت اسماعیل علیہ السلام وغیرہ انبیاء کرام کے مسجد حرام میں مدفون ہونے کی بات کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے - حدیث کی مستند کتابوں صحاح ستہ مسند احمد اورمعاجم طبرانی وغیرہ مشہور دواوین حدیث میں کسی میں اس کے متعلق کوئی حدیث وارد نہیں ہے – یہ بہت سے محقیقین کے نزدیک کسی حدیث کے ضعیف بلکہ موضوع ہونے کی علامت ہے“
22. ایک گذارش پیارے بھائیو ! اگر آپ کو اس مادہ سے کچھ فائدہ ہوسکا ہے توناچیز کو اپنی دعا ؤ ں میں نہ بھولیں اوردیگراحباب کو بھی ارسال کرکے فائدہ کے دائرہ کو وسیع کریں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ آپ کا دینی بھائی